Saturday, 13 October 2018

جج اپنے گریبان میں جھانکیں : چیف جسٹس




اسلام آباد(اے این این ) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل اب بہت ایکٹو ہے اور احتساب کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ ہائیکورٹس کی ذیلی عدالتوں سے متعلق سپروائزری کردار کے بارے میں کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ اب سب ججز کا احتساب ہوگا، لوگ چیخ چیخ کر مر رہے ہیں اور انصاف نہیں مل رہا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے بنچ نمبر ون نے سات ہزار کیس نمٹائے، ججز سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں 20 کیس نمٹائے۔جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کم کیسز کے فیصلے کرنے والے ججز کے خلاف بھی آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی ہوگی اور ججز کو چھٹی والے دن کی تنخواہ نہیں ملے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ اپنی سپروائزری ذمے داریوں میں ناکام نظر آتی ہے، لوگ تڑپ رہے ہیں، بلک رہے ہیں لیکن کسی کو کوئی فکر نہیں، ہائیکورٹس کی نگران کمیٹیاں ان معاملات کو کیوں نہیں دیکھ رہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ‘ہر جج کو گاڑی چاہیے، بنگلہ چاہیے،مالی چاہیے، مراعات چاہئیں، کیا ہم ہائیکورٹ کی نگراں کمیٹیوں کے ججز کو چیمبر میں بلا کر کارکردگی پوچھیں،کل مظفرگڑھ کے ڈسٹرکٹ جج نے پوچھنے پر بتایا 22 کیسز کا فیصلہ کیا،اب کام نہ کرنے والے ججز کے خلاف بھی مس کنڈکٹ کی کارروائی ہو گی۔چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا اگر کہیں ہائیکورٹ کے سپروائزری کردار سے مطمئن نہیں تو کیا کہیں گے جس پر انہوں نے جواب دیا آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے۔لاہور (کورٹ رپورٹر)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہاہے کہ لاپتہ افراد کیلئے بنچ قائم کردیا ،ان کے بارے میں ڈی جی آئی ایس آئی اور چاروں آئی جیز سے حلف نامے مانگے ہیں، حکمران اپنی ذمہ داری کریں تاکہ ہمیں مداخلت نہ کرنا پڑے ، ملک میں شہریوں کوبنیادی حقوق میسر نہیں ہیں ، پاکستان کسی نے بھیک یا تحفے میں نہیں دیا ، اس کے لئے قربانیاں دی گئیں، انصاف میں تاخیر بھی بے انصافی ہے ، بابا رحمتے کا کردار معاشرے کے بڑے اور منصف کا ہے۔سپریم کورٹ بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پاکستان اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی نعت ہے،پاکستان کسی نے خیرات یا تحفے میں نہیں دیا، پاکستان حاصل کرنے کیلئے بہت سی قربانیاں دی گئیں ،قربانیاں دینے والوں کو پاکستان کی قدر کا اندازہ ہے، یہ ایک آزاد ملک ہے اور آزاد ملک جیسی نعمت قسمت والوں کوملتی ہے ، آج میں ایک استاد سے مخاطب ہوں جس کی معاشرے میں قدر ہے، میں پہلے اپنے گریبان میں جھانک رہاہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بطور پاکستانی شہری اپنا حق ادا نہیں کیا۔ میں یقین سے کہہ سکتاہوں کہا آج یہ ملک نہ ہوتا تو میں کوئی چھوٹا موٹا وکیل ہوتا کیونکہ اس وقت جو تعلیم کامعیارتھا اس پر قبضہ کیا ہوا تھا اور مسلمان بہت کم تعلیم یافتہ تھے۔انہوں نے کہا کہ میں سپریم کورٹ بار کا سب سے پراناممبر ہو ں جب میں بابا رحمتے کی بات کرتا ہوں تو مذاق میں لیا جاتاہے لیکن یہ نہیں پوچھا جاتا کہ بابا رحمتے کاکردار کیاہے ؟ بابا رحمتے کا کردار منصف اور بڑے کا کردار ہے ، یہ عدلیہ کا مقام ہے اور اس کی عزت و تکریم لازم ہے اور اس کے بغیر معاشرے میں تواز ن قائم نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جس معاشرے میں جھوٹ سرایت کرگیا ہو تو پھر کیا توقع کیا جا سکتی کہ اس سے ملک کے لئے کیا ڈلیور ہوگا ؟ انہوں نے کہا کہ ایک جج کوایماندار ی سے ان مقدمات کافیصلہ کرناہے جو اس کے سامنے آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج جج کی تنخواہ سب سے زیادہ ہے اور ایک جج کوروزانہ 55ہزار روپے معاوضہ ملتاہے اور اب دیکھناہے کہ کیا وہ اتنے معاوضے کے مطابق کام کرتاہے۔انہوں نے کہا کہ حضرت علی ? نے کہا تھا کہ کفر کا معاشرے تو قائم رہ سکتا ہے لیکن بے انصافی کا معاشرہ قائم نہیں رہ سکتااور انصاف میں تاخیر کرنا بھی بے انصافی کی ایک قسم ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوات میں جو ایک انقلاب آیا تھا وہ اس وجہ سے آیا تھا کہ صوفی محمد نے لوگوں سے کہا تھا کہ آو ¿ ہم تم کوجلدی انصاف مہیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ججز کئی کئی ماہ تک شنوائی نہیں کرتے اور تاریخیں ڈال دی جاتی ہیں، ایک خاتون کو 61سال بعد گھر واپس ملا ، فیصلوں میں تاخیر عدالتی نظام کیلئے ناسور بن چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے قانون کے مطابق انصاف کر ناہے ، وہ دور چلا گیا جب مقدمات چلتے کئی کئی پشتیں گزر جاتی تھیں، لوگوں کوجلد انصاف چاہئے۔انہوں نے کہا کہ قانون شہادت کا قانون آج کے تقاضوں کوپورانہیں کرتا ، ججوں کو قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہونگے لیکن قانون کی تجدید بھی کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ جج جب اکیڈمی میں آتے ہیں تو میں ان سے سول قانون کے اصول پوچھتا ہوں جوان کونہیں آتے ، بڑے بڑے وکیل آج بھی موجود ہیں ان کوچاہئے کہ کوئی قانون کی کتاب ہی لکھ دیں۔ہم کو کھل کر اپنے گریبان میں جھانکنا پڑے گا پھر ہم اپنی آنیوالی نسل کو ایک مثبت معاشرہ دیکر جائیں گے ، اگر نہیں دیکر جائیں گے تو پھر وہی حال ہوگا جس کے بارے میں حضرت علی نے کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کیوں اہم ہے ؟ کیا اس کا مطلب یہی ہے کہ ایک کیڑا پیدا ہو گیااور اس نے پیدا ہوکر چلا جانا ہے۔انسان کے دو حقوق ہےں پہلا اس کا حق شخصیت کا حق ہے اور دوسرا حق جائیداد کاحق ہے ، یہ بنیادی حقوق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ڈاکٹر میرے پا س آکر روتاہے کہ اس کے بیٹے کو جوڈاکٹر ہے اٹھا کرغائب کردیا گیا ہے جس پر میں نے کئی اجلاس بلائے ہیں لیکن کہا جاتاہے کہ یہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک بیرون ملک پاکستانی کے مکان پر اس کا کرایہ دار قبضہ کرلیتا ہے اور وہ مقدمات کی طوالت سے کسی تیسری پارٹی سے تھوڑے سے پیسے لیکر راضی ہوجاتاہے۔ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں کے مریضوں کوسہولیات نہیں دی جارہیں ، کیا یہ ان کا بنیادی حقوق نہیں کہ ریاست ان کو صحت کی سہولیات فراہم کرے ، منشا بم جیسے لوگ دیگر افراد کی جائیدادیں کھا جاتے ہیں کیا یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے ، کیا صاف پانی کا ملنا اور بنیادی تعلیم سب کا بنیادی حق نہیں ہے۔ تھر کے بچوں، وہ بچے جو غلط ادویات اور آپریشن کے دوران مرجاتے ہیں ہے کیا ان کے بنیادی حقوق نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ یہاں پر سراسر بے انصافی ہورہی ہے۔ ایک آدمی کا نقشہ فوری پاس کردیا جاتاہے اور دوسرے کے نقشے پر اعتراضات لگا لگا کر اس کی مت ماردی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف میں تاخیر عدلیہ کی نا اہلی ہوسکتی ہے ، یہ بے انصافی ہے ، انہوں نے حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے ذمہ داری پوری کرنا شروع کریں ، عدلیہ مداخلت نہیں کرے گی ، ہم تو خلا کو پر کرنے کیلئے آتے ہیں، آج شناخت اور ملکیت جیسے بنیادی حقوق بھی محفوظ نہیں ہے۔ ہم نے جو بھی کیاہے وہ انسانی ہمدردی اور بنیادی حقوق کے تحت کیاہے اورہمارے حکمرانوں کوبھی اللہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کر یں۔ انہوں نے کہا لاپتہ افراد کیلئے میں نے ایک بنچ مختص کردیاہے اور ڈی جی آئی ایس آئی اور چاروں صوبوں کے آئی جیزکو بلاکر کہاہے کہ لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات دیں اور اگر آپ کوپتہ نہیں تو پھر آپ حلف نامے دیں تاکہ اگر بعد میں یہ غلط ثابت ہو تو آپ کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں قوم کومایوس نہیں کرنا چاہتا بہت جلد اچھاوقت آئے گا۔ چیف جسٹس کا مزیدکہنا تھا کہ کفر کا معاشرہ تو قائم رہ سکتا ہے لیکن جہاں بے انصافی کا عروج وہاں معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا،ایک جج کو ہر کیس کا فیصلہ پوری ذمہ داری سے کرنا چاہیے، کیا آج ہم اپنی ذمہ داری پوری کررہے ہیں؟ہمارے قوانین اور سسٹم میں ترامیم کی ضرورت ہے کیونکہ وہ دور گیا جب لوگ انصاف ملنے کے منتظر رہتے تھے اور صبر سے کام لیتے تھے لیکن اب ایسا نہیں۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کیا ایک فلاحی ریاست کا حق نہیں کہ وہ اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق اور سہولیات فراہم کرے؟بابا رحمتے کا کردار ایک منصف کا ہے لیکن جس نظام کاڈھانچا جھوٹ اور بددیانتی پرمبنی ہوگا تو وہاں کیا کارکردگی دیکھائی جا سکتی ہے؟ججز جتنی تنخواہیں لے رہے ہیں اتنا کام بھی کریںلیکن افسوس کہ کئی کئی دن مقدمات کی شنوائی نہیں کی جاتی کیا یہ بے انصافی نہیں ہے؟ججز کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا ہو کہ وہ آنے والی نسل کو کیا دے رہے ہیں؟مقدمات کے فیصلوں کو وقت پر ہونا چاہیے کیونکہ یہ عدالت کی ذمہ داری ہے،جس کا حق مارا جاتا ہے وہ انصاف کا منتظر رہتا ہے،مقدمات کو نمٹانے میں تاخیر ایک ناسور بن چکا ہے،قوانین کا ازسرنوجائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک جیسی نعمت ہر کسی کو نہیں ملتی جن کے پاس یہ نعمت نہیں ان سے پوچھو، یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا،آج ہم جو کچھ بھی ہیں صرف پاکستان کی وجہ سے ہیں لیکن ہمارے ملک کا ڈھانچہ درست نہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ بار اور عدالت کی عزت لازم ہے اور اس کے بنا کوئی معاشرہ نہیں چل سکتا اور اسی طرح استاد کی عزت بھی لازم ہے،عوام کی ترقی کے لیے ہمیں پوری ذمہ داری سے کام کرنا ہوگا جبکہ ایک جج کو ہر کیس کا فیصلہ پوری ذمہ داری سے کرنا چاہیے،61 برس بعد خاتون کو 15 دن میں انصاف دیا گیا جب جج ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو انصاف فراہم نہیں کیا جا سکتا۔

No comments:

Post a Comment

GC Women university Sialkot (Pakistan) job

GC Women university Sialkot (Pakistan) job  Newspaper link GC Women university Sialkot (Pakistan)